لوگ کیا کہیں گے ؟ - The Price Of Being Nice - تیسری اور آخری قسط -





سب کو خوش رکھنے والے افراد کے بارے میں ماہرین نفسیات کا موقف۔
 ایسا شخص جویہ کام تواتر سے کرتا رہتاہے یعنی انے وا مٹھاس اور تہذیب ، تصنع سے بھرپور ، جی حضوری ، تو ، دوسرے افراد ، شرمندہ ہونے لگتے ہیں ، یعنی ، جنہیں وہ خوش رکھ رہا ہوتا ہے ، وہ ، ترحم کے آمیزے میں لت پت ہوجاتے ہیں ، پھرا ن افراد کی یہ کیفیت  ، اری ٹیشن ، پریشانی ، غصہ ، بنتی ہے ، اور آخر کار ،  انہیں مروت زدہ مفعول سے ، نفرت ہوجاتی ہے ، اور وہ اسے ، ڈسگسٹ کی ڈسٹ بن میں ڈال کر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔
 اس کے علاوہ،مروت زدے کے زاویے سے دیکھیں تو
اس کے دل سے بھی ، دوسروں کے لیے مٹھاس ، وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہورہی ہوتی ہے ، اس کی وجہ ، دوسروں کا رویہ نہیں بلکہ ، اس کی وجہ اس کے اپنے اندر چھپی ہوتی ہے ۔
در اصل ، یہ ، میٹھے ہو ہو کر ، اپنا غصہ ، منفیت ، دباتے رہتے ہیں ، اس چکر میں ان کے اندر سے مثبت جذبات اور لگاوٹ بھی زائل ہوتی یاد دبتی چلی جاتی ہے ، کیوں کہ ، آپ ایک جائز کیفیت کو ، ایک حد تک دباتے چلیں جائیں ۔

انسانی کیفیات /احساسات، کا باہمی ربط۔
اس کو یوں سمجھیں کہ
انسانی کیفیات / احساسات، آپس میں اس طرح لنکڈ ہیں ، جس طرح ، موبائل فون ، اینڈراوڈ سسٹم کی ، سسٹم کی اندر کی فائلز آپس میں نتھی ہوتی ہیں ۔
، یعنی وہ فائلز جو موبائل بنانے والی کمپنی انسٹال کر کے دیتئ ہے ، جنہیں آپ ، ان انسٹال نہیں کرسکتے ، یا اگر کریں گے تو مسئلہ ہوگااسی طرح ، انسان نما مشین بناتے ہوئے ، اس کے اندر ، کیفیات اور جذبات ، کو انٹر لنکڈ کر کے رکھا گیا ہے ،۔اس لیے ایسے افراد ، جو دوسروں کے سامنے اچھا بننے یا وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کے شوقین ہوتے ہیں ، ایک حد سے زیادہ وہ ، اپنی تلخی یا غصہ دباتے چلے جائیں تو ، ایک وقت یہ بھی آجاتا ہے کہ ، ان کے اندر، کے مثبت جذبات بھی اجڑ جاتے ہیں ، ایسا ممکن ہی نہیں کہ ، آپ صرف ، غصہ/تلخی دباتے رہیں اور ، آپ کے مثبت جذبات نہ دبیں ۔
کیوں کہ یہ سب انٹرلنکڈ ہیں یہی وجہ ہوتی ہے "سب کو خوش رکھنے والا ، اخیر قسم کا رسوا ہو کر رہتا ہے سوسائٹی میں۔
سماجی /اجتماعی شعور اور اقوام کا حال ۔
اور اگر یہی عادت ، اقوام کو پڑ جائے توپوری پوری سوسائٹیاں ، "اچھی باتوں کی تلقین ، تعلق جوڑے رکھنے پر ، مصر "پوسٹس" کرتی نظر آتی ہیں "لیکن اندر سے اجاڑ ہوتی ہیں ۔حقیقی زندگی میں ، تعلق، برباد ہوتے ہیں
اورشخصیتیں ، صحرا، کچھ نہیں بچتا پھر ان کے اپنے اندر۔کوئی کتنا ہی ، میٹھا یا اچھا بن جائے ، جلد یا بدیر ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے کہ ، لوگوں(ہر کسی کو) کو خوش رکھنے کے لیے ، ، انے وا قربانی دیتے چلے جانا ،ایثار کرنا ، صرف دیتے چلے جانا، آپ کے اندر ، حتمی قسم کی مایوسی /ناراضگی کو جنم دیتا ہے ۔ایسے لوگ ، اکثر اوقات ، ادھر کی ادھر کرتے ، زود رنجی کرتے نظر آئیں گے ، بڑے بڑے شعرا ، لکھاری ایسے گزرے ہیں ، جن کی زندگی نکل گئیں مرو ت میں ( جو ویسے ہی ، لکھاری کا کام نہیں ) ، اور ان کی شاعری ان کی تحاریر پڑھ لیں ، رونے دھونے ، بیوگی سے بھری پڑی ہے ۔
اکثر المیہ نگار ، اکثر، غصیلیے اکثر ، مفعول مشتعل نقاد، ایسی ہی حرکات کی پراڈکٹ ہوتے ہیں ، یعنی ان کا مزاج۔
ٹائم پر بول نہیں سکتے   کہ ، کسی کو خوش رکھنا پڑرہا ہے ،ا ور بعد میں ہائے ہائے کرتے پھرتے ہیں ۔اور جن کے لیے وہ اچھے بن یعنی مصنوعی طور پر بن رہے ہوتے ہیں ، سب سے پہلا ٹھڈا انہی سے پڑتا ہے نظر دواڑئیں اپنے اطرافکوئی بھی شخص ، جس سے سب خوش ہوں اس سے پوچھیں کیا تم اندر سے مکمل ہو، کوئی روگ نہیں ؟
اختتامیہ ۔
لوگ کیا کہیں گے
نامی ، المیے پر مبنی ، اس ، انتہائی،  وسیع اور ، ہمہ جہت ، طویل موضوع کو یہاں روکتے ہوئے ، آخر میں ،
مشہور ، آئرش ، ڈرامہ نگار ، سیاسی ایکٹی وسٹ ، تجزیہ نگار ، اور
Polemicist
یعنی ماہر مناظرہ (مناظر )
جارج برناڈ شا ،  کے الفاظ میں ، اس گفتگو کو یوں سمیٹا جا سکتا ہے کہ ۔

"تعلق کے لیے یکطرفہ اور متواتر اور بے جا دبتے چلے جانا ، قربان ہوتے چلے جانا ، ایثار کرتے چلے جانا ، ان سب کا انجام ، بالاآخر ، انہیں تعلقات سے نفرت کی صورت سامنے آتا ہے ، جن کی محبت میں آپ یہ سب کررہے ہوتے ہو، یعنی آخر کار۔ ، آپ کو ، ان سے نفرت ہوجاتی ہے ۔۔"

تبصرے