سب کو خوش
رکھنے والے افراد کے بارے میں ماہرین نفسیات کا موقف۔
اس کے علاوہ،مروت زدے کے زاویے سے دیکھیں تو
اس کے دل
سے بھی ، دوسروں کے لیے مٹھاس ، وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہورہی ہوتی ہے ، اس کی وجہ ،
دوسروں کا رویہ نہیں بلکہ ، اس کی وجہ اس کے اپنے اندر چھپی ہوتی ہے ۔
در اصل ، یہ
، میٹھے ہو ہو کر ، اپنا غصہ ، منفیت ، دباتے رہتے ہیں ، اس چکر میں ان کے اندر سے
مثبت جذبات اور لگاوٹ بھی زائل ہوتی یاد دبتی چلی جاتی ہے ، کیوں کہ ، آپ ایک جائز
کیفیت کو ، ایک حد تک دباتے چلیں جائیں ۔
انسانی
کیفیات /احساسات، کا باہمی ربط۔
اس کو یوں
سمجھیں کہ
انسانی
کیفیات / احساسات، آپس میں اس طرح لنکڈ ہیں ، جس طرح ، موبائل فون ، اینڈراوڈ سسٹم
کی ، سسٹم کی اندر کی فائلز آپس میں نتھی ہوتی ہیں ۔
، یعنی وہ فائلز جو موبائل بنانے والی کمپنی انسٹال کر کے دیتئ ہے
، جنہیں آپ ، ان انسٹال نہیں کرسکتے ، یا اگر کریں گے تو مسئلہ ہوگااسی طرح ،
انسان نما مشین بناتے ہوئے ، اس کے اندر ، کیفیات اور جذبات ، کو انٹر لنکڈ کر کے
رکھا گیا ہے ،۔اس لیے ایسے افراد ، جو دوسروں کے سامنے اچھا بننے یا وکٹ کے دونوں
طرف کھیلنے کے شوقین ہوتے ہیں ، ایک حد سے زیادہ وہ ، اپنی تلخی یا غصہ دباتے چلے
جائیں تو ، ایک وقت یہ بھی آجاتا ہے کہ ، ان کے اندر، کے مثبت جذبات بھی اجڑ جاتے
ہیں ، ایسا ممکن ہی نہیں کہ ، آپ صرف ، غصہ/تلخی دباتے رہیں اور ، آپ کے مثبت
جذبات نہ دبیں ۔
کیوں
کہ یہ سب انٹرلنکڈ ہیں یہی وجہ ہوتی ہے "سب کو خوش رکھنے والا ، اخیر قسم کا
رسوا ہو کر رہتا ہے سوسائٹی میں۔
سماجی
/اجتماعی شعور اور اقوام کا حال ۔
اور
اگر یہی عادت ، اقوام کو پڑ جائے توپوری پوری سوسائٹیاں ، "اچھی باتوں کی
تلقین ، تعلق جوڑے رکھنے پر ، مصر "پوسٹس" کرتی نظر آتی ہیں "لیکن
اندر سے اجاڑ ہوتی ہیں ۔حقیقی زندگی میں ، تعلق، برباد ہوتے ہیں
اورشخصیتیں
، صحرا، کچھ نہیں بچتا پھر ان کے اپنے اندر۔کوئی کتنا ہی ، میٹھا یا اچھا بن جائے ، جلد یا
بدیر ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے کہ ، لوگوں(ہر کسی کو) کو خوش رکھنے کے لیے ، ، انے
وا قربانی دیتے چلے جانا ،ایثار کرنا ، صرف دیتے چلے جانا، آپ کے اندر ، حتمی قسم
کی مایوسی /ناراضگی کو جنم دیتا ہے ۔ایسے لوگ ، اکثر اوقات ، ادھر کی ادھر کرتے ،
زود رنجی کرتے نظر آئیں گے ، بڑے بڑے شعرا ، لکھاری ایسے گزرے ہیں ، جن کی زندگی
نکل گئیں مرو ت میں ( جو ویسے ہی ، لکھاری کا کام نہیں ) ، اور ان کی شاعری ان کی
تحاریر پڑھ لیں ، رونے دھونے ، بیوگی سے بھری پڑی ہے ۔
اکثر المیہ نگار ،
اکثر، غصیلیے اکثر ، مفعول مشتعل نقاد، ایسی ہی حرکات کی پراڈکٹ ہوتے ہیں ، یعنی
ان کا مزاج۔
ٹائم پر بول نہیں
سکتے کہ ، کسی کو خوش رکھنا پڑرہا ہے ،ا
ور بعد میں ہائے ہائے کرتے پھرتے ہیں ۔اور جن کے لیے وہ اچھے بن یعنی مصنوعی طور
پر بن رہے ہوتے ہیں ، سب سے پہلا ٹھڈا انہی سے پڑتا ہے نظر دواڑئیں اپنے اطرافکوئی
بھی شخص ، جس سے سب خوش ہوں اس سے پوچھیں کیا تم اندر سے مکمل ہو، کوئی روگ نہیں ؟
اختتامیہ
۔
لوگ کیا کہیں گے
نامی ، المیے پر مبنی ،
اس ، انتہائی، وسیع اور ، ہمہ جہت ، طویل موضوع کو یہاں روکتے
ہوئے ، آخر میں ،
مشہور
، آئرش ، ڈرامہ نگار ، سیاسی ایکٹی وسٹ ، تجزیہ نگار ، اور
Polemicist
یعنی ماہر مناظرہ (مناظر )
جارج برناڈ شا ، کے الفاظ میں ، اس گفتگو کو یوں سمیٹا جا سکتا
ہے کہ ۔
"تعلق کے لیے
یکطرفہ اور متواتر اور بے جا دبتے چلے جانا ، قربان ہوتے چلے جانا ، ایثار کرتے
چلے جانا ، ان سب کا انجام ، بالاآخر ، انہیں تعلقات سے نفرت کی صورت سامنے آتا ہے
، جن کی محبت میں آپ یہ سب کررہے ہوتے ہو، یعنی آخر کار۔ ، آپ کو ، ان سے نفرت
ہوجاتی ہے ۔۔"
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
بلاگ پر تشریف آوری کے لیے ، شکریہ، آپ کی قیمتی رائے شایع کردی گئی ہے۔