لوگ کیا کہیں گے ؟ - The Price of Being Nice - پہلی قسط



فہرست موضوعات

سماجی اقدار کا عمومی جائزہ اور، اس کا تعلقات پر اثر۔
مذہب کی ادھوری /من پسند تفاہیم اوراس کے سماجی اثرات
ادھوری سماجیات ، کچی پکی  ، آدھی ادھوری ، مذہبی تشریحات کا انجام۔
فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ ، امپریشن  کا مخمصہ ۔
مفعولی کی قیمت ، مروت کا مول – The Price of Being Nice.
ظاہری شخصیت کا فریب ۔
مروت زدگی کے مضمرات
مفعول/مطیع/محض مروت ہی مروت ، نقصان دہ کیوں ہوتی ہے ۔ ؟
محض ، مروت پر مصر رہنے والے کا حتمی انجام ۔
سب کو خوش رکھنے والے افراد کے بارے میں ماہرین نفسیات کا موقف۔
اختتامیہ ۔
انسانی کیفیات /احساسات، کا باہمی ربط۔
سماجی /اجتماعی شعور اور اقوام کا حال ۔
اختتامیہ ۔

 سماجی اقدار کا عمومی جائزہ اور، اس کا تعلقات پر اثر۔

اس سماج میں ، اس کلچر یا اکثر کلچروں میں ، ایسی اقدار ، سکھائی بلکہ ٹھونسی جاتی ہیں کہ ، انسان – غیر ضروری ، مفعول /معمول ہونے کی حد تک ، مطیع ہوتا چلا جاتا ہے ۔اچھے بچے ، چھ چھ گھنٹے ، خاموشی سے کلاس روم میں بیٹھتے ہیں یہ اچھے بچے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو ، ہر کسی کو خوش رکھنے ، اور جوڑ جوڑ کر رکھنے کے چکر میں ، خود ٹوٹ جاتے

مذہب کی ادھوری /من پسند تفاہیم اوراس کے سماجی اثرات

ہاں  ان کلچرز کا تذکرہ بھی ضرور ی ہے ،  ، جہاں ، مذہب کی ان تفاہیم/تشریحا ت کو،  افیون کی طرح چٹایا جاتا ہے ، جو اپنے مفاد کو سوٹ کرتی ہے ، نہ کہ ، مذاہب ، کے ،اصل جوہر کو سمجھنے کی غرض سے ،مثلا،  یہ بتایا جاتا ہے  کہ ، ایک تھپڑ کھا کر دوسرا گال آگے کردو، کیوں کہ ، مہذب کی افیون ، ہمیشہ ، یک طرفہ گھٹی کی طرح پلائی جاتی ہے، اور ظاہر ہے ،  ، حضرت انسان ، نیت کا اتنا خالص ہوتا ،تو آسمانی صحیفوں میں تحریفات نہ کرتا، اور جس تصنیف میں تحریف نہیں کرسکا، اس کی انٹر پریٹیشن بدل دی ، یا کم از کم ، اس کا ایک رخ ہی ، سوسائٹی کی کی جڑوں میں ڈال دیا ، مثلا ، مذہب سکھاتے ہیں  کہ
"لوگوں کا خیال کرو"
اس عنوان کے تحت ، بہت سا ، مواد ہمیں ، پڑھایا جاتا ہے ، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ انسان کو رحم کا معاملہ ،  کرنا بھی یہی چاہیے ، پر ، مذہب کے ایسے عنوانات ،ا ور احکامات ،
مثلا
 "پہلے اپنی زندگی/ذہن و جسم  کی بہتری اور مثبت روش"
یہ گول کردیا گیا،
اور سکھایا یہ گیا ،   کہ ، حقوق العباد ، پورے کرو ، (یہاں تک تو ٹھیک تھا)
پر انتہائ غیر محسوس انداز میں ، وہی بچے جو چھ چھ گھنٹے سکول میں خاموش بیٹھے رہتے تھے ، انہوں نے بڑے ہو کر ،
حقو ق العباد ، پورے کرو کو
یوں پڑھا کہ
 دوسروں کو خوش رکھو ، خواہ ، اپنا کباڑا کر بیٹھو

ادھوری سماجیات ، کچی پکی  ، آدھی ادھوری ، مذہبی تشریحات کا انجام۔
مروت نے، مطیع کرتے کرتے ،  مفعول کر کے رکھ دیا ، پھر ظاہر ہے ، ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے ، مفعولی کی قیمت  بھی ہوتی ہے ، مروت کا مول  بھی ہوتا ہے ،
جو ان سب کو چکانی پڑتی ہے ، جنہیں ،  
، دوسروں کو خوش  رکھنا  اور صرف دوسروں کو ہی خوش رکھتے چلے جانا ، ، عباد ت لگتا ہے ۔
 اور محض دوسروں کی نظروں  میں اچھا بننا ، زندگی کا مقصد، وہ بھی الہامی مقصد معلوم ہوتا ہے۔
پہلا تاثر ، آخری ہوتا ہے   کیا واقعی  ؟
 "فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ ون " سن کر ، بڑے ہونےوالے معاشرے ، کے اجتماعی لاشعور میں  ، یہ گیان ، کس قدر پکا ہو کر بیٹھا ہوگا ، کہ ان کا لاشعوراور شعور ، کم ازکم ، اس ایک معاملے میں تو ، اتفاق ہی کرتا ہوگا کہ ،
فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ امپریشن
اس سے بھی دو گز اوپر ، وہ ہوتے ہیں ، جو ایسی شکست خوردہ ذہنیت کو ، اپنی اذیت پسندی ، فیڈ کرنے  کے لیے استعمال کرتے ہوئے "الگ ہی درجات" پر فائز ہوجاتے ہیں ، اور خود کو ، اپنی کم مائگی کو ، اپنی مفعولی کو ، تمغہ بنا کر ،  "تعلق نبھانے کا کوئی آفاقی/الہامی فریضہ" بنا کر پیش کرتے ہیں ، پر کیا ایسے لوگ ، اپنے اندر سے خالص اور مکمل ہوتے ہیں ؟
نہیں ، کیوں  کہ
First Impression is the last impression
تک تو پڑھ لیا
لیکن ، یہ ادھورا تھا ،
پورا یہ تھا
First Impression might be the last one, but not the one which lasts for always.
جی ، یہاں سے جڑ پڑی ، کسی کی ود باتوں ، چند تحاریر ، ایک آدھ کمنٹس سے اس کی پوری شخصیات کا خاکہ بنا لینے کی ۔
خواہ ، براہ راست ، اس سے مخاطب ہی نہ ہوئے ہوں ۔
خیر ، اور یہ تاثر ہوتاکیا ہے ؟ جب منہ میں زبان ہے ، چہرے پر کان ہیں ِ سر میں ، دماغ بھی اگر ہو لیکن اس میں سوچ نہ ہو ، تو
انسان یہ نہیں سوچ پاتا کہ ، تاثر تو محض ایک گمان ہے ، اور گمان پر ججمنٹ بنا لینا تو ویسے ہی ، معاملات کی خرابی کا پہلا ، سبب ہے ۔
جی پر ، سوچ ہو تب نا ، دماغ میں تو ، افیون بھری ہے ۔

جاری ہے 

تبصرے