سماجی اقدار کا عمومی
جائزہ اور، اس کا تعلقات پر اثر۔
مذہب کی ادھوری /من
پسند تفاہیم اوراس کے سماجی اثرات
ادھوری سماجیات ، کچی
پکی ، آدھی ادھوری ، مذہبی تشریحات کا
انجام۔
فرسٹ امپریشن از دی
لاسٹ ، امپریشن کا مخمصہ ۔
مفعولی کی قیمت ،
مروت کا مول – The Price of Being Nice.
ظاہری شخصیت کا فریب
۔
مروت زدگی کے مضمرات
مفعول/مطیع/محض مروت
ہی مروت ، نقصان دہ کیوں ہوتی ہے ۔ ؟
محض ، مروت پر مصر
رہنے والے کا حتمی انجام ۔
سب کو خوش رکھنے والے
افراد کے بارے میں ماہرین نفسیات کا موقف۔
اختتامیہ ۔
انسانی کیفیات /احساسات،
کا باہمی ربط۔
سماجی /اجتماعی شعور اور اقوام کا حال ۔
اختتامیہ ۔
اس سماج
میں ، اس کلچر یا اکثر کلچروں میں ، ایسی اقدار ، سکھائی بلکہ ٹھونسی جاتی ہیں کہ
، انسان – غیر ضروری ، مفعول /معمول ہونے کی حد تک ، مطیع ہوتا چلا جاتا ہے ۔اچھے
بچے ، چھ چھ گھنٹے ، خاموشی سے کلاس روم میں بیٹھتے ہیں یہ اچھے بچے جب بڑے ہوجاتے
ہیں تو ، ہر کسی کو خوش رکھنے ، اور جوڑ جوڑ کر رکھنے کے چکر میں ، خود ٹوٹ جاتے
مذہب کی
ادھوری /من پسند تفاہیم اوراس کے سماجی اثرات
ہاں ان کلچرز کا تذکرہ بھی ضرور ی ہے ، ، جہاں ، مذہب کی ان تفاہیم/تشریحا ت کو، افیون کی طرح چٹایا جاتا ہے ، جو اپنے مفاد کو
سوٹ کرتی ہے ، نہ کہ ، مذاہب ، کے ،اصل جوہر کو سمجھنے کی غرض سے ،مثلا، یہ بتایا جاتا ہے کہ ، ایک تھپڑ کھا کر دوسرا گال آگے کردو، کیوں
کہ ، مہذب کی افیون ، ہمیشہ ، یک طرفہ گھٹی کی طرح پلائی جاتی ہے، اور ظاہر ہے ، ، حضرت انسان ، نیت کا اتنا خالص ہوتا ،تو
آسمانی صحیفوں میں تحریفات نہ کرتا، اور جس تصنیف میں تحریف نہیں کرسکا، اس کی
انٹر پریٹیشن بدل دی ، یا کم از کم ، اس کا ایک رخ ہی ، سوسائٹی کی کی جڑوں میں
ڈال دیا ، مثلا ، مذہب سکھاتے ہیں کہ
"لوگوں
کا خیال کرو"
اس عنوان
کے تحت ، بہت سا ، مواد ہمیں ، پڑھایا جاتا ہے ، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ انسان
کو رحم کا معاملہ ، کرنا بھی یہی چاہیے ،
پر ، مذہب کے ایسے عنوانات ،ا ور احکامات ،
مثلا
"پہلے اپنی زندگی/ذہن و جسم کی بہتری اور مثبت روش"
یہ گول
کردیا گیا،
اور
سکھایا یہ گیا ، کہ ، حقوق العباد ، پورے کرو ، (یہاں تک تو ٹھیک
تھا)
پر انتہائ
غیر محسوس انداز میں ، وہی بچے جو چھ چھ گھنٹے سکول میں خاموش بیٹھے رہتے تھے ،
انہوں نے بڑے ہو کر ،
حقو ق
العباد ، پورے کرو کو
یوں پڑھا
کہ
دوسروں کو خوش رکھو ، خواہ ، اپنا کباڑا کر
بیٹھو
ادھوری
سماجیات ، کچی پکی ، آدھی ادھوری ، مذہبی
تشریحات کا انجام۔
مروت نے،
مطیع کرتے کرتے ، مفعول کر کے رکھ دیا ، پھر
ظاہر ہے ، ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے ، مفعولی کی قیمت بھی ہوتی ہے ، مروت کا مول بھی ہوتا ہے ،
جو ان سب
کو چکانی پڑتی ہے ، جنہیں ،
، دوسروں
کو خوش رکھنا اور صرف دوسروں کو ہی خوش رکھتے چلے جانا ، ،
عباد ت لگتا ہے ۔
اور محض دوسروں کی نظروں میں اچھا بننا ، زندگی کا مقصد، وہ بھی الہامی
مقصد معلوم ہوتا ہے۔
پہلا تاثر
، آخری ہوتا ہے کیا واقعی ؟
"فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ ون " سن کر
، بڑے ہونےوالے معاشرے ، کے اجتماعی لاشعور میں
، یہ گیان ، کس قدر پکا ہو کر بیٹھا ہوگا ، کہ ان کا لاشعوراور شعور ، کم
ازکم ، اس ایک معاملے میں تو ، اتفاق ہی کرتا ہوگا کہ ،
فرسٹ
امپریشن از دی لاسٹ امپریشن
اس سے بھی
دو گز اوپر ، وہ ہوتے ہیں ، جو ایسی شکست خوردہ ذہنیت کو ، اپنی اذیت پسندی ، فیڈ
کرنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے "الگ
ہی درجات" پر فائز ہوجاتے ہیں ، اور خود کو ، اپنی کم مائگی کو ، اپنی مفعولی
کو ، تمغہ بنا کر ، "تعلق نبھانے کا
کوئی آفاقی/الہامی فریضہ" بنا کر پیش کرتے ہیں ، پر کیا ایسے لوگ ، اپنے اندر
سے خالص اور مکمل ہوتے ہیں ؟
نہیں ،
کیوں کہ
First
Impression is the last impression
تک تو پڑھ
لیا
لیکن ، یہ
ادھورا تھا ،
پورا یہ
تھا
First
Impression might be the last one, but not the one which lasts for always.
جی ، یہاں
سے جڑ پڑی ، کسی کی ود باتوں ، چند تحاریر ، ایک آدھ کمنٹس سے اس کی پوری شخصیات
کا خاکہ بنا لینے کی ۔
خواہ ،
براہ راست ، اس سے مخاطب ہی نہ ہوئے ہوں ۔
خیر ، اور
یہ تاثر ہوتاکیا ہے ؟ جب منہ میں زبان ہے ، چہرے پر کان ہیں ِ سر میں ، دماغ بھی
اگر ہو لیکن اس میں سوچ نہ ہو ، تو
انسان یہ
نہیں سوچ پاتا کہ ، تاثر تو محض ایک گمان ہے ، اور گمان پر ججمنٹ بنا لینا تو ویسے
ہی ، معاملات کی خرابی کا پہلا ، سبب ہے ۔
جی پر ،
سوچ ہو تب نا ، دماغ میں تو ، افیون بھری ہے ۔
جاری ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
بلاگ پر تشریف آوری کے لیے ، شکریہ، آپ کی قیمتی رائے شایع کردی گئی ہے۔