ا ب ، دور بدل رہا ہے ، پر ، کچھ معاشروں
میں ، اب بھی ، یہی سوچ ، موجود ہے ، زنگ
آہستہ آہستہ ہی اترے گا ۔
ہاں پیٹ کی بھوک کے لیے ، تین بار ، کھانا
، مانگو ، تو یہ نہیں کہا جاتا، بہت بھوک چڑھی گئی ہے ؟ زیادہ فاقہ ہورہا ہے کیا ؟
معاشرے ، لگتاہے کہ ، فطرت نے ہمیں ، صرف، معدے کی بھوک
دے کر ہی ، دنیا میں بھیجا ہے ، باقی ، ضروریات، شرم اور ، رواجوں کی نذر ہوجائیں
تو بھی خیر ہے ۔لیکن سب کے سامنے اچھا ضرور بننا ہے ۔ لوگ باگ ، برادری کیا کہے گی
، وغیرہ وغیرہ ۔
مصلحت او راخلاقیات کے نام پر ، دبنا
سکھایا جاتا ہے ۔
زیادہ بولنے کو ، برا کہا جاتا ہے ، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا ، کہ اپنے مدعے کے لیے
بولنا ، زیادہ بولنانہیں ، حتی کے ، زیادہ ، بے ربط ، بے موضوع بولنا برا ہے ۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ ، ہمیں
"خاموشی" اور ایک چپ سو سکھ ، کا لیکچر دینے والے مبلغین ، یہی تبلیغیں
، گھنٹوں ، تقاریر کر کے ، کرتے ہیں
بندہ ان سے پوچھے ، کم بولنے کی ترغیب ،
اتنا زیادہ بول کر کیوں دے رہے ہو ۔
بہرحال ،
یہ چیزیں جب جم کر جوان ہوجاتی ہیں ، تو ،
پھر ، ان کو توڑنا شدید مشکل ہوجاتا ہے ۔
اکثر افراد، کی ذہنی رو، انہیں چیزوں میں
بھٹک کر "مفعول و مطیع" کے طور پر ، ٹرین ہو چکی ہوتی ہے ۔
اور پھر شروع ہوتا ہے
"دوسروں کے سامنے اپنی ذات کی سند
لینے کا" اندوہناک راستہ ۔
اپنی ذات کو مستند قرار دلوانا۔
بس مجھے لوگ کچھ نہ کہیں ، میری تعریف کریں
، انہیں خوش رکھوں ، سب مجھے اچھا سمجھیں ، میرے ہر کام کا مقصد، اپنی ذات کی
اپروو ل ، اور تصدیق / ویلی ڈیشن ، وہ بھی
دوسروں سے ، لینا ہو ،
ایسے افراد کو ، "بے غرض" ایثار
پسند ، با مروت ، اور اعلی ظرف کے کھوکھلے ٹائٹلز ، دے د ے کر ، اور پکا سیمنٹ ، کردیا جاتا ہے ۔
فیصلے /ذمے داری کے بوجھ سے آزادی ۔
تعاون کرنے والا ، سب کے کام آنے والا ،
بقول شخصے ، خدمت خلق کا مارا ہوا۔اس لیے ، اپنی شخصیت میں جھانکیں تو ، ان میں ، کوئی قوت فیصلہ یا ، کسی کے مخالف جانے کی سکت
نہیں بچتی ، کیوں کہ ، تنازعے سے بچناہے تو ، پھر ، ایسا آدمی ، اپنے کاندھوں پر ،
بہت ہی کم بہت ہی کم ، فیصلوں کے بوجھ ، طاری کرتا ہے ۔
کم از کم ، ان افراد سے بہت کم ،جنہیں ہم
اگریسو ، مشتعل مزاج ، یا پھر ، اپنی بات
کو جماکر ، تمیز سے منوانے والایا انگلش میں
Assertive
کہتےہیں ، ان کے کاندھوں پر ، شدید بوجھ ہوتا ہے، فیصلوں کا ، سب کو لے کر چلنے کا ، سخت چوائسز کا ، توازن رکھنے کا ، ، اور
کہتےہیں ، ان کے کاندھوں پر ، شدید بوجھ ہوتا ہے، فیصلوں کا ، سب کو لے کر چلنے کا ، سخت چوائسز کا ، توازن رکھنے کا ، ، اور
مفعول ،یعنی
Submissive
کے کاندھے ، فیصلوں کے بوجھ سے عاری ہوتے
ہیں ، کیوں کہ اس کی زندگی کی راہیں دوسرے بنا رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ اچھا بننے کے
چکر میں ، اسی پر چلا جا رہا ہوتا ہے ۔ظاہر
ہے جب ، فیصلہ ساز نہیں ، تو لیڈر بھی نہیں ، اور جب لیڈ ر بھی نہیں ، تو
اگر کچھ ، غلط ہوجائے تو ، الزام بھی اس کے سر نہیں آتا ،
پیروکار، ٹائپ افراد پر کوئی الزام نہیں
رکھتا، الزام ، جنرل پر آتا ہے ، سپاہیوں پر نہیں ، ٹیم کے بجائے ، گرفت ، ٹیم لیڈر پر ہی ہوا
کرتی ہے ۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ،
اگر ، چند افراد نے ، طے کیا کہ ہم فلم
دیکھیں گے ، اور وہ فلم ، بہت بے کار تھی ، تو پیروکار ٹائپ شخص ، جو سب کی خوشی
میں خوش ہے ، اس پر کوئی الزام نہیں ڈال سکتا کہ ، تمھاری چوائس بے کار ہے ، کیوں
کہ ، اس نے ، فیصلے کے وقت ، بجائے کلئیر بات کرنے کے ، یہ
کہا تھا
"آپ لو گ ، کچھ بھی دیکھو ، چلے گا ،
میں آپ کے ساتھ ہوں "
اور یہ بھی کہ ، ان میں سے کچھ ، مفعول قسم
کے افراد، (سب نہیں ) کچھ ، افرا د، ، اتنے بے یار و مددگار ٹائپ ہوتے ہیں کہ ،
دوسرے افراد ان کی ، حفاظت اور کئیر کے لیے آن موجود ہوتے ہیں ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
بلاگ پر تشریف آوری کے لیے ، شکریہ، آپ کی قیمتی رائے شایع کردی گئی ہے۔