خود اعتمادی ، خود فریبی ، اور معاشرے میں پھیلی بے چینی ۔


اوریہی وہ فرق ہے ، جو سیلف ہیلپ ، موٹی ویشنل سپکیر وغیرہ آپ کو نہیں بتائیں گے یا بتا نہیں پائیں گے ، یا بتانا نہیں چاہیں ، گے ، یہ ان کی مرضی ، یہ ان کی نیت۔
بات صرف اتنی ہے،
خود پرانحصار کرنا ، اس پرمبنی جملے ، مثبت انگیزی ، ہدف کا تعین ، یہ سب بہترین باتیں ہیں ، لیکن بغیر ، عمل کے بے ثمرہیں ۔
بھئی آ پ یہ سوچ بھی کیسے سکتےہیں کہ ، عمل ، کوشش محنت، اس سب کے بغیر محض چند مضامین ،پڑھنے سے ،آپ کے اندراعتماد کی رمق تک جاگ جائے گی ۔
چھوٹی سی مثال ، آپ نے بہت بار دوسری شادی پر مبنی مواد پڑھا ہوگا ، کیسا جذبہ بنتا ہے ؟
حقیقی موٹی ویشن کیا ہے  یا کس شخص سے ملے گی ، بھئی ظاہر ہے ، اس دور میں جب ، عدالتیں  گلابی ہوچکیں ہیں اور، عورتیں , راحت نہیں بلکہ ناجائز  تجاوزات ٹائپ ہیں ، کہ بس اب میں ہی ہوں تمھاری سب کچھ ، 
بھئی عورت ہو ، یا ، قبضہ مافیا ،  دوسری کاسوچے بھی نہیں ، ایسے دورمیں ، موٹی ویشن ، باتیں دیں گی یا عملی مثال ؟
، اب چونکہ ، دوسری شادی موضوع نہیں  محض مثال ہے ،  ، اوراس معاشرے کے مزاج کے عین مطابق، ان کا دل ضرور چاہے گا ،کہ ، موضوع چھوڑ کر ، اسی جز کو پکڑ کراس پر بات کی جائے ، کچھ گلابی مرد حضرات کا ، اور تقریبا ساری عورتوں کا ، ویک اپ، جاگ جائیں ، ٹرن ٹرن ٹرن  ، ہیلو ہیلو ، موضوع خوداعتمادی ہے ۔
تو بات کچھ یوں یہ ہے کہ 
اٹھارویں صدی کے ایک  ، ایک برطانوی مصنف ، تاریخ دان ، طناز، مضمون نگار ، مولف، فلسفی ، ریاضی داں ، اور استاد
تھامس کارلائل کا کہنا تھا۔
 تکمیل/کامیابی/کمال/اکملیت یعنی ، Accomplishments  جیسی کوئی ایک چیز بھی نہیں ، ، جو ، عزت نفس، اور خوداعتمادی کی تعمیر کرسکے ۔

آپ خود اعتمادی کی کمی کاشکار ہیں ،

خودسے یہ پوچھئیے ، آج کے دن میں نے ، کیاکما ل کیا ہے ، کیا کانٹری بیوٹ کیا ہے ، کیاحاصل کیاہے
اب وہ تکمیل،چھوٹی ہے یا بڑی ، ایک ہیں یا کئی، اسے اپنے پاس لکھ لیجئے ، اوراسے پڑھ کرسوجائے ،
صبح، اعتماد کا میٹر، تھوڑا سا ، بڑھاہوا ملے گا

ایک اورسماجی تجربہ کرناچاہتے ہیں ؟

صنفی تفریق اورعمروں کے تفاوت سے قطع نظر ، اپنے اطراف کے لوگوں میں ،سب سے زیادہ ، خبروں ،سیاسیات، مذہب ، چوتھے محلے ، سات سمندرپارکی سازشوں کی خبر رکھنے والے ہر شخص سے پوچھیں
"آپ نے آج کادن یاپچھلے ایک سال میں کیا اچیو کیا"
گارنٹی ہے ، موسٹلی ، ان کواچیومنٹ کا مطلب نہیں پتا ہوگا، سوائےسیلری وغیرہ بڑھ جانے کے
یاپھرپتاہوگاتواچیوکچھ نہیں کیا ہوگا ، ایسے افراد کے تمام مباحثے ، مناظرے ، ایک نکتے پرختم ہوتےہیں
اچھا یار بہت ٹائم ہوگیا ، بعد میں کنٹی نیو کریں گے ، صبح آفس ہے
یاپھر

 ہمیں کیالینا دینا ان چیزوں سے ، یار ، بس، انڈسٹری کی حالت بری ہے ، اللہ خیرہی کرے ، حالت ٹائٹ اورنوکری کابھی کچھ پتا نہیں ، آج کل بہت ڈاون سائزنگ چل رہی ہے ،
یار ، یہ مسئلہ ہوگیا ، وہ مسئلہ ہوگیا ، یار یہ سب اس نظام کی وجہ سے ہے  ، یہ جو کارپوریٹ ہے نا یہ ہماری صلاحیتوں کا کھاگیاہے ، چل یار ، پھر ملتے ہیں صبح ، نو بجے پریزنٹیشن ہے میری آفس میں ، دعاکرنااپریزل لگ جائے ۔
 کیوں ؟
ایسا کیوں ہے ؟
 اچیوورز کے منہ سے ایسا نہیں سنیں گے آپ ، خواہ ، و ہ نوکری پیشہ ہی کیوں نہ ہو، وہ وہاں بھی فوکسڈہی ہوگا، اچیوورز ان چکروں میں پڑتے نہیں ، پڑنا چاہیں بھی تو، نہیں پڑسکتے ، ٹائم ہی نہیں ہوتا۔
ٹائم ملے تو اگلی اچیومنٹ کی طرف چل پڑتے ہیں ۔

یہ مشق کیجئے
خود سے پوچھئے لوگوں سے پوچھئے /
پھردیکھئیے کارلائل کی بات کیسے صادق آتی ہے ۔




تبصرے