دیکھنے
والے کو اندازہ ہوتا جاتا ہے کہ یہ فلم ، ہارر لگنے کے باوجود ،
مکمل
طور پر ایک ،
Slasher فلم ہے
Slasher فلم ہے
سلیشر
فلم یعنی، جس پہ غالب تاثر ،اور پلاٹ کا مرکز ،قتل و غارت اور
بے رحمانہ، انداز میں خون کی ہولی کھیلنا ہو ، اب وہ خون کی ہولی ، انسان کھیلیں
یا کوئی مافوق الفطرت مخلوق۔
یہ
تو ہوا اس فلم کا مزاج اس کے پلاٹ پر کچھ بات کی جائے
فلم
کا پلاٹ
رانگ ٹرن ،کےپہلے حصے ، کا پلاٹ ، عمومی طور پر
، پہلی نظر میں، وہی گھسا پٹا محسوس ہوتا ہے ، جو فلم بین ، عرصہ دراز سے ، ایول
ڈیڈ ، ٹائپ کی فلموں کے سٹائل میں دیکھتے ہوئے آرہے ہیں یعنی کہ
چند کردار راستہ بھول کر یا ، جوانی کی مستی میں ، یا جان بوجھ کر نکلے ہیں ، جو
بظاہر ، آبادی سے ، بہت زیادہ / بالکل کٹا ہوا نہیں ہے ، حتی کہ ، سناٹے اور ہریالی سے بھرا مقام ہے لیکن، وہاں
، کسی چرند ، پرند، وغیرہ کا نا م و نشان
تک نہیں ، ہاں ، ایک آدھ جگہ ، کسی ،
جنگلی جانور، وغیرہ کی ادھڑی ہوئی لاش، بہرحال ، سڑک کے کنارے ، نظر آجاتی ہے ۔جس
سے بنیادی طور پر اس کہانی کا پلاٹ ، کسی ، آسمانی حوادث کا شکار خطہ زمین ، کے گرد، بنا ہوا محسوس
ہوتاہے ، پر جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے یہ بھیانک حقیقت ، بہرحا ل ، واشگاف انداز میں واضح ہوتی چلی جاتی ہے کہ
، کہ اس فلم کے پلاٹ کی جڑ ، اور مرکزی خیال کے ، بیج میں ، ایک ایسا انسانی المیہ
چیخ رہا ہے ، جس کی کراہیں ، بدصورت شکلوں
، اور شقاو ت قلبی سے بھرے ، بظاہر، مجسم
، دو ٹانگوں والے انسان کے ، بگڑے ، ہوئے ، چہروں پر بکھری پڑی ہیں ۔
استعارہ
جیساکہ،
ڈراونی یا قتل و غارت سے بھری فلمیں ،بظاہر
ایک مقصد لیے لگتی ہے، کہ سفاکیت سے لوگوں کے اجسام ادھیڑنا ،
انسانی
خون سے غسل کرنا،
انسانی اعضاء کو ،مرچ مصالحہ ، لہسن پیاز، ادرک
ٹماٹر ،کے ساتھ پورے اہتمام سے مکمل
ریسیپی بنا کر کھانا،
اور
تو اور ، جس کی کھال کے چھوٹے چھوٹے قتلے بنائے جارہے ہوں، وہ اس وقت زندہ ہو ، اسے
خاردار تاروں سے جکڑا ہوا ہو ،
اس کی گردن پر کو شکجنے سے قابو کیا گیا ہو، اس
کے ہاتھ پاؤں باندھ کر،
اس کی ران، اس کے سینے اور بازوں کی مچھلیوں سے
تازہ
گوشت کے پارچے کاٹ کر ، اس کے سامنے ہی ،
بھونا یا، فرائ کیا جا رہا ہو، گویا ،
بندہ نہ ہوا ، لائیو باربی کیو ہوگیا۔
اسے
یہ معلوم ہو ، کہ ابھی ، کسی بھی وقت، اس کے دائیں یا بائیں جانب، کوئی سرجیکل
بلیڈ مار کر، کھال کو پھاڑ کر ، ، اس کا
جگر یا تلی ، وغیرہ ، نکال کر ، ، اسے ترکی کباب کی مانند پیاز، ٹماٹر، ہری مرچ ، کے
ساتھ سیخ میں پرو کر کھایا جایے گا
اور
مرغیوں کے پنچوں کی صفائی کے اندا ز میں اس کی انگلی ، کو کاٹا جا سکتا ہے ، حتی
کے ، وہ کچی بھی ، ٹافی یا چاکلیٹ کی مانند ، کھائی جا سکتی ہے ، یہ سب پڑھ ، یا
سوچ کر، جتنا اندوہناک معلوم ہوتا ہے ، اتنا ہے نہیں ۔جی ایسا ہی
ہے ، اس کی وجہ سادہ ہے ، ہم فلموں کو ، ویسا دیکھتے ہیں جیسا نظر آتی ہیں ، ہم
استعاروں میں بات کرنے کے عادی ہیں لیکن استعارے سمجھنے کے لیے زحمت نہیں کرتے ،
ہونے کو تو
بہت کچھ ہو سکتا ہے ،پر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ تو ہو سکتا ہے، کہ اس فلم میں انسانی رویوں ،اور
کردار یا پھر، مختلف کمزوریوں کو ،بدصورت شکلوں میں دکھایا گیا ہو ،
لیکن
، ایسا کرنے سے ، کتنی فیصد عوام ، موضوع کو سمجھ پائے گی ؟
اور
کتنے فیصد، ناظرین ،اسے محض ، اسپیشل ایفیکٹس، ساونڈ کی سائنس ، تھری ڈی ، اچھے
گیٹ اپ ، میک اپ آرٹسٹ کی تخلیقی مہارت کے ذریعے پھیلائی گئی ہولناکی سمجھیں گے ۔ان سوالوں کے
جواب کے لیے ، ہم اپنے اگلے عنوان پر چلتے ہیں ،جو کہ یہ ہے کہ ، جس معاشرے میں یہ
فلم دکھائی جا رہی ہے ، اس کا عمومی ، مزاج یا رجحان کیا ہے
معاشرے
کا رجحان
یہ
محض ، ایک مشاہدہ ہے ،کوئی ، کائناتی ،
اصول یا ، اسے کوئی آفاقی حقیقت نہ سمجھا جائے۔
لیکن بہرحال، یہ معاشرے کے رجحانات پر، منحصر ہے
کہ ،وہ ایسی فلموں کو ، کس طرح سمجھتا یا خیال کرتا ہے ۔مثلا، ایک عمومی ، رائے نہ
سہی ، لیکن ، ایک مخصوص معاشرے میں ، اگر دیکھا جائے تو جہاں احساسات ، جذبات ،
حساسیت، حد سے زیادہ ہوجائے ، میں کہتا ہوں حد سے زیادہ ہوجائے تو ایسے معاشروں
میں ، آپ کو ، دو خوبیاں ، مشترکہ ، طور پر، بدرجہ اتم نظر آئیں گی
وہ اپنی ذات کی حد تک تو ، بہت زیادہ حساس ہو جاتا ہے
اور
دوسروں کے لئے صرف اتنا احساس کر پاتا ہے، جتنے سے ، اس کے اپنے ، روزمرہ کے معاملات ، یا
Bread and Butter ڈسٹرب نہ ہو
Bread and Butter ڈسٹرب نہ ہو
جہاں جہاں آپ
کو، ایسا معاشرہ /افراد نظر آئیں گے ،ان میں ایسی قدریں /خصوصیات ،مشترک ملیں گے ،کہ سامنے کی
چیز پر فوکس کیاجائے ، نہ کہ کل کو سمجھ کر ، اس پر کوئی رائے یا موقف بنایا جائے ،
جہاں موضوعات کوچھوڑ کر، لفظوں کا آپریشن کیا جائے ، اور پھر چھوٹے چھوٹے لفظ پکڑ
پکڑ کر ، موضوع کو چھوڑ کر ، اخلاقیات پہ ہاتھ مارا جائے ، ہلکی پھلکی ، تنقید پہ برا مانا جائے ، وہاں ،
اجتماعی طور پر، جعلی خیر سگالی ، بھوک کی طرح ، وارد ہوجاتی ہے ۔اور پھر لوگوں کی
بنیادی ضرورت ، مٹھاس، وہ بھی جعلی ، حتی کے ان کو پتا بھی ہو کہ ، جعلی ہے ، پھر
بھی وہ اسی کی ڈیمانڈ کرتے ہیں ،
یوں سمجھ
لیجئے کہ ، نشئی کو پتا ہی ہوتا ہے کہ ،
نشہ خطرناک ہے ، پر کیا کرسکتا ہے ، سوائے ، زیادہ سے زیادہ کرنے کے ۔
الغرض ، ایسے
معاشرے ، جہاں ، احساس، اپنے زیر جامے کی حفاظت کو کہا جائے ، وہاں مذکورہ بالا
فلمیں اور مناظرلوگوں کے دل
کے ٹکڑے کردیتے ہیں ، پھر ، وہاں ، کرداروں کی حقیقت پر مبنی ، اداکاری ، ایسے
افراد کو خون کے آنسو رلاتی ہے ، جبکہ ، حقیقی زندگی میں اس سے کہیں زیادہ وحشیانہ مناظر ، شئیر/فیس بک ، واٹس ایپ ، سینہ
گزٹ کے ذریعے ۔ کرتے پھر رہے ہوتے ہیں ،
کسی قتل کسی کٹی پھٹی لاش کسی ، کی لٹی
ہوئی عزت کو ، آگے بڑھا کر ، ایک دوسرے کی غیر ت جگاتے پائے جاتے ہیں ۔
لیکن اگر
ویسا، عمل ایسے افراد کے ساتھ ہوجائے ، ،
تو کوئی ان لوگوں سے سے اس کا تذکرہ یا
سوال تک نہ کرے ، کیوں کہ وہ ان کا ، پرسنل/ذاتی /نجی مسئلہ ہے ۔
مذکورہ بالا،
خصوصیات ، کا شکا ر، افراد/سوسائٹی /معاشروں کی یہی حساسیت اور سوچ ہوتی ہے
ایسی فلموں
یا مناظر کو ، محض ، منفی گردانتے ہیں ۔
دوسری طرف ،
معاشرے کے کچھ طبقے ، ایسے بے رحمانہ فلمی مناظر کے پیچھے کی سوچ کو ، گرپ کرنے /جکڑنے یا ، سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
سٹوری لائن ، اس کو بنانے کا انداز، تکنیکی
معاملات ،اس سوچ کے پیچھے کا فلسفہ ، اس پر بات ہوتی ہے ، در اصل فلم لکھنے یا
بنانے والا ، دکھانا کیا چاہ رہا ہے ؟
سادہ
سی بات ہے جس معاشرے میں ، جو طبقہ زیادہ
ہوگا، اس پر ، فلم کا اثر اسی طرح پڑے گا
۔
پہلے
والے ، صرف ٹریلر دیکھ کر اس کے خلاف انسانیت زدگی شروع کردیں گے
دوسرے
والے ، پوری دیکھ کر ، بھی اس کا اثر ، لے کر ، سوال اٹھائیں گے کہ کیوں کیا کب
کیسے فائدہ کیا ہوا، ایسا کیوں کیا گیا ، وغیرہ وغیرہ ۔، نہ کہ منظر اور انداز پر
۔
جب
آپ کی حساسیت کا یہ عالم ہو کہ آپ کو ،
لکھئے ہوئے میں لہجہ سنائی دیتا ہو۔۔ تو پھر اتنی خوفناک یا کاٹ پیٹ والی فلم ، آپ کے شعوری معدے کے لیے
، نہیں بنی ۔
عمر کے لحاظ سے، لوگوں کے اذہان
پر اس کا فرق، یعنی دیکھنی چاہئے ، یا نہیں دیکھنی
چاہئے
چھوٹے
بچے/نابالغ بالکل نہ دیکھیں ۔
پچیس
سے چالیس والے بھی دیکھنے سے پہلے درج ذیل، سطور کا مشاہدہ فرمائیں
چالیس
کے بعد والے ، افراد اگر ، ہلکی آنچ کے گلابی سے نہ ہوں تو، ان کے لیے یہ مضمون
ویسے ہی بےکار ہے ، کیوں کہ ، چالیس کے بعد بھی ، بندے کو ، اگر پتا نہ ہو ، کہ
میں نے کیا دیکھناہے ، اور کیا نہیں ۔۔ تو پھر۔۔۔۔ خیر ۔۔
یہ
فلم ، صنفی تفریق سے کافی زیادہ بالاتر ہے ، کیونکہ اکثر اوقات بہت سے بظاہر کرخت
اصحاب ، اور ماچومین دکھنے والے افراد بھی اس فلم کے اندر دکھائے گئے مناظر کو یہ
جانتے ہوئے بھی ، کہ یہ مناظر ، صرف سپیشل فیکٹ ہے جیسا دکھایا جارہا ہےایسا کچھ
نہیں ہے، نہیں دیکھ پاتے دے ۔
بھی
کبھار ایسی خواتین جو بظاہر بہت نازک اور بہت بہت حساس محسوس ہوتی ہیں، وہ ایسی
فلموں اور ایسے مراحل ،کو کھانا کھاتے ہوئے بھی دیکھ لیتی ہیں۔تو
اس میں ، عمروں اور جنس کے کا تفاوت سے قطع نظر ، یہ دیکھنا پڑے گا کہ ، کہ دیکھنے
والا کس لیےا سے دیکھ رہا ہےکیا
وہ فلم میں کی ٹیکنیک اس میں ، سجھائی گئی ، سوچ ، پر فوکس ہے کہ دکھانے والا۔
بنانے والا ۔لکھنے والا ۔دکھانا کیا چاہ رہا ہے ، یا پھر وہ سامنے آتے مناظر، کو
دیکھ کر ، ان مناظر کی ، ظاہر، غلاظت ، خوفناکی ، قساوت قلبی ، میں قید ہو کر ،
سوچنے سمجھنے سے عاری ہوجاتا ہے ؟ اگر آپ ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے، ہلکے سے
گلابی ہیں ، یعنی کمزور اعصاب کے ہیں ، تو پھر بالکل مت دیکھئے یے لیکن جسمانی طور
پر کمزور ہی سہی ، پر ،اعصابی طور پر ، مضبوط ہیں ، اور ، احساسات کی ذیابطیس کا
شکار نہیں ، اور فلم لکھنے والے, بنانے والے ,دکھانے والے ,کو سمجھنا چاہتے ہیں اس
کا نظریہ سوچنا چاہتے ہیں ، تو اس فلم کو ضرور دیکھئے ، شاید آپ کا ، فلم میکنگ /
واچنگ کے موجودہ ، نظریہ ، یکسر تبدیل ہو کر رہ جائے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
بلاگ پر تشریف آوری کے لیے ، شکریہ، آپ کی قیمتی رائے شایع کردی گئی ہے۔