کامن سینس ہو یا ، سوچ کی نئی جہت ، مثلا، کریٹکل
تھنکنگ
سوچنے کی حس ، اجاگر کرنے ، یا شعوری انداز
میں سوچنے کے لیے ، درج ذیل چند تراکیب آزمائیے۔
کشادہ ذہن/وسعت تخیل ۔
کسی بھی ، چھوٹے یا بڑے معاملے کا تجزیہ
کرنے کے لیے ، مجموعی طور پر تکلیف دہ حد تک ، جس چیز کی قلت ہوتی ہے ، وہ، کشادہ
ذہن/رفعت تخیل ہے۔
مخالفت کے لیے تیار رہنا۔
ہم چونکہ ، اپنی مرضی کی سننا چاہتے ہیں ،
تو ایسے فیڈ بیک ، یا جوابات سے گریز کرتے ہیں جو ہمیں پسند نہ ہوں ۔اور تو اور ہم ، خود سے پوچھنے لگتے ہیں
کہ ، جوابات کے اس ڈھیر میں ، ہماری پسند کا جواب کون سا ہے؟ ، اور ہم خود کیا چاہتے ہیں؟
،
پھر اسی جواب کے پیچھے چلنے لگتے ہیں ۔جو کہ اکثر سطحی ذہنیت پر مبنی ہوتا ہے ، لیکن
، لگتا ہمیں ، موثر ہے ، پر ہوتا اکثر اوقات غلط ہے ۔
اس اپروچ کے بجائے ، کوشش کیجئے کہ ، اپنے
ذہن کو ہر طرح کے جواب ، سننے اور جذب کرنے کی ٹریننگ دیں ، یہ بہت ضروری ہے ۔
غیر ضروری، غیر حقیقی ، اثبات
انگیزی یعنی ، مثبت سوچوں سے گریز۔
ہم اکثران مفروضے پہ سانس لے رہے ہوتے ہیں کہ
سب
کچھ اچھا ہے ،سب ٹھیک ہوجائے گا ،سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے ۔اورایسی سوچوں پر،
غیر ضروری انداز میں ، اتنے پکے ہوجاتے ہیں کہ
ایسے بیانات علی الاعلان ، دینا شروع کردیتے ہیں ، جیسے
میں تصدیق کرتا ہوں کہ ، سب ٹھیک ہو رہا ہے
۔
تعلقات کے معاملے میں اس طرح سوچتے ہیں کہ
۔
میں جانتا ہوں وہ مجھے پسند کرتی ہے
بڑے کینوس پر اس طرح کی مہریں لگاتے ہیں کہ
میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ملکی معیشت ،
بہتر ہو رہی ہے ، اوپر کی طرف جا رہی ہے ۔
یہ کیوں ہوتا ہے ؟
گمان کی گمراہی
یعنی آفاقی اور مسلمہ اصولوں کے علاوہ
، ہر معاملے میں ، پہلے سے طے شدہ حقائق سے اوپر اٹھ کر سوچنا
بہتر یہ ہوتا ہےکہ ، انسان ، مفروضے/تھیوریز،
یا سوچوں کے نئے زوایے تخلیق کرنے کے لیے
، پہلے سے طے شدہ حقایق سے اوپر اٹھ کر سوچے ، کم از کم سوچوں/فیصلوں کی سمت ٹھیک
کرنے کے لیے ہی سہی پر، دوسری سوچوں کو جگہ ضرور دے۔
کیوں کہ ، متبادل بیانئے کی اہمیت، سمجھنا،
اس عمل یعنی قوت فیصلہ /کامن سینس کے وہم سے نکلنے اور حقیقی سمجھ بوجھ حاصل کرنے
کے پراسیس میں ایک حملان ، یعنی عمل انگیز ، یا
Catalyst
Catalyst
کا کردار ادا کرتا ہے
کم ازکم ،
Consideration
کی حد تک ہی سہی ، لیکن ، یہ سوچ رکھنا کہ
، جو جواب ، ہم سننا چاہ رہے ہیں ، جو نتائج ہم دیکھنا چاہتے ہیں ، حقائق اور عملی
دنیا اس سے، کہیں زیادہ ، الگ بھی ہو سکتی
ہے ۔پریوں ، شہزادوں ، اور گلابی جذبات بھری حساسیت ، کا سب سے پہلا شکار ، عقل پر
ہوتا ہے ، اگر یہ پڑھنے کے دوران ، اپ کے دماغ میں یہ ہوک اٹھی ہے کہ ، جذبات سے
عاری عقل کا کیا کرنا، تو یقین کیجئے ، آپ تقریبا، لاعلاج ہیں۔ کیوں کہ ، جذبات کو
، ایک طرف رکھ کر ۔ مکمل طور پر، ذہنی روپر توجہ دینے اور اس طرح سوچنے سے ، ہم
بہرحال ایک فائدہ یہ لے سکتےہیں کہ ، ہمارا تجرباتی مائنڈ سیٹ کشادہ ذہنی ہے ، نہ
کہ ۔ ، کم ازکم ، خود کو، خوش کرنے یا مثبت رہتے ہوئے ، اپنی ہی بات پر، اپنی ، ہی
مہر تصدیق چسپاں کرنے کی مشق نہیں
سروے / سیمپل سائز اکٹھا کیجئے
ہم ، ایک بہت بڑی آبادی جو ایک سی رائے
رکھتی ہو ، اور دوسری آبادی جو دوسری رائے رکھتی ہو ،ان کی سوچوں اور موقف کے
مختلف ، زاویے ، جمع کریں ، اور اس طرح بہت سے سیمپل سائز جمع کریں ، ان کا تجزیہ
کریں ۔تاکہ ، بجائے ، اپنے چند ، گنے چنے ، دوستوں یا خوش آمدیوں سے ، رائے لینے
کے ، جو کہ ، اکثر آپ کی رائے کے ساتھ ملتی جلتی ہوتی ہے ۔خصوصیت کے ساتھ ، ان سے
رائے لیجئے ، جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں
کہ ، ان کی رائے ، ہماری سوچ سے کافی مختلف ہوگی ۔
)یاد رکھئے ، یہاں غیر ضروری تنقید اور
انفرادیت زادی کرنے والے افراد کی رائے اہم نہیں ، نہ ہی میٹر کرتی ہے ، اوران کا
ذکر ، یہاں مقصود نہیں)
لیکن کیا یہ سب کرنے سے ، فیصلے کی
قوت، اور ایک درست ججمنٹ کی گارنٹی دی جاسکتی ہے ؟
جو
کہ ان تحاریر کا مقصد تھا ؟
نہیں ،بالکل نہیں ، مکمل گارنٹی تو کسی بھی
چیز کی نہیں ، لیکن ، ایک چیز بہرحال ہے ، ان چیزوں سے ، ان تراکیب سے ، آپ جو نتائج اخذ کریں گے ، جو سینس ڈیولپ کریں
گے ، وہ بہرحال ، حقیقت سے بہت قریب تر ہوگی ، جو کامن ہو یا نہ ہو ، ریشنل، لاجکل ، منطقی ، تجزیاتی بہرحال
ہوگی ۔
آخری بات یہ کہ ،
ڈیٹا کا ، معروضی ، یعنی غیر جذباتی انداز میں تجزیہ کریں ۔
ایک بات طے شدہ ہے کہ ، قدرتی طورپر ، ہم
سب ، اپنے مفروضوں تھیوریز کو ، عدم ثبوت کی بنا پر ،رد ہوتا دیکھ کرخوش نہیں
ہوتے، حتی کہ ، ہم اپنی ذاتی سوچ، نظریوں
کو غلط ہوتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔اور تو اور ، سائنسی تھیوریز اور حقائق کے معاملے میں تو اسقدر،ترش رو، اور حقائق کی مذمت کرتاقول یہ ہے
"اگر ،حقائق، مفروضے پر ، پورے
نہ اتریں ، تو تھیوری رکھ لو ، حقائق پھینک دو۔"
اس سےاندازہ کیجئے ،
فیصلہ سازی کی قوت کے ناقص ہونے میں ، غلط،
نامکمل ، اور کچے پکے ، حقائق کا ، کتنا زیادہ ہاتھ ہے ، حقائق کوٹھیک ٹھیک سمجھ
کر ، ان کا تجزیہ کر کے ، فیصلے لے کر،یا کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ، بہت ضروری
ہے کہ ، ہم انسانی کیفیات ، جذبات ،اور احساسات، تعصبات کو ، ایک طرف رکھ کر صورتحال کا تجزیہ کریں ۔ایک نئی ، تحقیق کے مطابق، یہ بڑا گھمنڈی ، گستاخ ، اور بے
باک سا بیانیہ ہے
پرکیاکیجئے ،جب ، بات ، فیصلہ سازی ،
چوائس، کی ہو، تو ، انسانی نفسیات کی یہ ٹریننگ،
کینسر یا بخار میں سے ،بخار کو چننے پر مائل
کرتی ہے ۔نہ کہ دونوں سے بچنے کے چکر میں دونوں کا شکار ہوجانے پر۔
اس لیے ، اب تک کی متعین راہوں میں یہی واحد راہ ایسی بچی ہے
جس پر چل کر ، مختلف معاملات میں ،بڑے کینوس پر ، سوچ کے دھاروں کو کنٹرول کرکے ،
نتیجہ خیزی کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔
الغرض یہ کہ،
نفسیاتی پیمانوں پر، اگر ہم ، سوچنا سیکھ
لیں ۔وہ بھی ، بے رحمی کی حد تک کھلے دماغ ، اور کشادہ ،تھاٹ پیٹرنز یعنی سوچوں کے
نمونوں /ترتیب، کا استعمال کرتے ہوئے ، تو
، عین ممکن ہے ، بلکہ، بہت زیادہ امکان ہے کہ ، ہم
روز مرہ کے مسائل، کو آسانی سے حل کرلیں ،
وہ دنیاوی ہو ں ، مادی ہوں ،یا کسی اور جہت سے متعلق، ہوں ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
بلاگ پر تشریف آوری کے لیے ، شکریہ، آپ کی قیمتی رائے شایع کردی گئی ہے۔